01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 3
آں چست
از روز میری
قسط نمبر3
مشائم اپنے حواسوں پہ بحال نہیں تھی۔ زہرہ' مشائم کی بڑی بہن جو شادی شدہ تھی مگر چند دنوں کیلیئے مائیکے آئی تھی، عمارہ بیگم، عامر صاحب اور انیقہ بیگم مشائم کی چیخ پہ اسکے روبرو حاضر ہوئے۔
"کیا ہوا مشائم؟ تم ڈری ہوئی کیوں ہو؟"۔ انیقہ بیگم مشائم کے سرہانے بیٹھی اس سے وجہ دریافت کرنے لگیں۔
"دادو وہ بک۔ بکے"۔ مشائم جو بیڈ کے تاج کے ساتھ خوف سے سمٹی بیٹھی تھی' نے فرش کی جانب اشارہ کیا۔
"مشائم یہاں تو کچھ نہیں ہے تم نے یقینا کوئی ڈراونا خواب دیکھا ہے"۔ مشائم کو دلاسہ دیتے عمارہ بیگم نے کہا۔
"نہیں ماما وہ خواب نہیں تھا میں نے خود دیکھا وہ بکے پہلے احد کے پرائیویٹ روم میں اب یہاں روم میں"۔
انیقہ بیگم نے آیت الکرسی اور چند آیات کا ورد کرتے مشائم پہ پھونکا۔
"مشائم بیٹا آپ سو جاو ورنہ آپکی طبیعت خراب ہو جائے گی"۔ عامر صاحب کو تشویش ہوئی۔
"ہاں مشائم پاپا ٹھیک بول رہے ہیں ایسا کرو تم میرے ساتھ میرے روم میں آ جاو"۔ زہرہ نے تائید کی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیڑھیوں سے اترتے وہ کچن کی جانب بڑھ رہا تھا جب راستے میں بیٹھی الزبتھ' پرشین کیٹ، نے اسے اپنی طرف راغب کیا۔
"محترمہ آپ یہاں بیٹھی ہیں ۔۔ کیا میری منتظر تھیں؟"۔ الزبتھ کو ملتفت نظروں سے دیکھتے احد نے اسے جھک کر بانہوں میں لیا۔
ملائم جلد' نیلی آنکھوں والی سفید بھک بلی اسے پیار بھری گھوری سے نواز رہی تھی۔
یہ ایک کھلے طرز کا کشادہ کچن تھا جسکے سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل لگا تھا۔۔۔ الزبتھ کو چیئر پہ بٹھاتے وہ خود اسکے برابر چیئر گھسیٹ کر اس پہ براجمان ہو گیا۔
"احد بیٹا کیا لو گے؟؟ آپ کے لیئے پراٹھا بنواوں؟؟"۔ راضیہ بیگم اسکے قریب آ کر کہنے لگیں۔
"ماما نہیں پراٹھا رہنے دیں میں بریڈ اور جیم ہی لوں گا ایسا کریں ایک گلاس جوس لے آئیں"۔ ٹیبل پہ رکھی بریڈ کا سلائس لیتے احد نے اس پہ جام لگانا شروع کیا۔
"ٹھیک ہے میں لے آتی ہوں"۔ راضیہ بیگم کچن کی جانب بڑھیں۔
احد نے جونہی سلائس کو منہ تک رسائی دی الزبتھ چیئر پہ کھڑے ہوتے احد کی پشت کی جانب دیکھتے غرانے لگی تھی جس پہ احد نے سلائس پلیٹ میں رکھا۔
"کیا ہوا الزبتھ؟ کون ہے یہاں؟"۔ اسے چمکارتے احد نے چہرے کو جنبش دیتے الزبتھ کی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا جہاں کوئی نا تھا۔
کچھ پل بعد الزبتھ چیئر سے اٹھتے غیبی رموز کے پیچھے قدم رکھتے' سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ احد سراسیمہ کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔
"الزبتھ کم ہیئر"۔ وہ بلی جو احد کی پہلی آواز پہ گھر کے کسی بھی گوشے سے احد کے سامنے وارد ہو جاتی تھی آج اسکی پکار ان سنی کرتے اسکے روم میں داخل ہو گئی تھی۔
الزبتھ کی یہ حرکت احد کو سوچنے پہ آمادہ کر چکی تھی۔
"احد بیٹا یہ جوس"۔ ہاتھوں میں جوس کا گلاس پکڑے راضیہ بیگم اس طرف آئیں لیکن جواب موصول نا ہونے پہ انہوں نے جگ ٹیبل پہ رکھا اور احد کو جھنجوڑا۔ " احد بیٹا کہاں گم ہو؟؟"۔
"ج۔ جی"۔ احد دھیان نگر سے واپس آیا۔
"کوئی پریشانی ہے؟؟"۔ راضیہ بیگم نے کنفرم کیا۔
"نہیں ماما سب ٹھیک ہے"۔ نظر چراتے احد دوبارہ سے چیئر پہ بیٹھ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم انیقہ بیگم کے روم کی دہلیز پہ آ کھڑی ہوئی' انیقہ بیگم قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں محو تھیں تب مشائم انکے مقابل بیڈ پہ جا بیٹھی۔
تلاوت قرآن پاک سے فارغ ہوتے انیقہ بیگم نے رب کے حضور دعا کیلیئے ہاتھ اٹھائے 'مشائم دوپٹہ سلیقے سے اوڑھ کر انیقہ بیگم کو دیکھنے لگی۔۔۔ بیڈ سے اٹھتے انیقہ بیگم نے قرآن پاک مخصوص شیلف پہ رکھا پھر مشائم کی طرف آئیں۔
"دادو میں آپ سے ایک بات پوچھوں؟؟"۔ رات والا واقعہ ہنوز مشائم کے دھیان کے پردے پہ تھا۔
"جی میری جان پوچھو کیا بات ہے؟"۔ انیقہ بیگم نے پرمسرت انداز میں کہا۔
"دادو ہم جنوں' بھوتوں کے بارے میں کہانیوں میں پڑھتے ہیں ڈرامے اور فلمز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ان میں سے اکثر فرضی کہانیاں ہیں' حقیقت سے بہت دور۔ کیا جن' بھوت اصل میں ہوتے ہیں؟ انکا تصور حقیقی ہے یا خیالی؟"۔ مشائم نے کشاکش سے کہا۔
"مشائم جنات بھی ہماری طرح خدا کی پیدا کی گئی مخلوق ہے جسکی تخلیق آگ سے کی گئی ہے۔ انسانوں کی طرح انکے بھی ڈیرے اور خاندان ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ انسان نظر آتے ہیں اور جنات ظاہری آنکھ سے دیکھے نہیں جا سکتے"۔ انیقہ بیگم نے تفصیل دی۔
"دادو کیا جنات انسانوں کے مابین رہتے ہیں؟ مطلب انسان کو تنگ کرتے ہیں؟"۔ مشائم مزید سوچ کے بھنور میں پھنستی چلی جا رہی تھی۔
"مشی جنات ارادی طور پر کسی کو تنگ نہیں کرتے نا ہی نقصان پہنچانے کی سوچتے ہیں جیسے ایک جانور اپنے بچاو میں حملہ کرتا ہے ٹھیک ویسے جنات بھی ایسا ہی کرتے ہیں مگر جنات کا بیر برا ہوتا ہے"۔ انیقہ بیگم نے باور کرایا۔ " مشائم مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو؟"۔ انیقہ بیگم نے حیرت سے کہا۔
"کچھ نہیں دادو وہ ۔۔۔۔"۔
"اسلام و علیکم"۔ دہلیز سے آتی احد کی آواز پہ مشائم مزید زبان کی حرکت سے باز رہی۔
"و علیکم اسلام احد بیٹا کیسے ہو؟؟"۔ انیقہ بیگم نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
"ٹھیک ہوں دادو آپ کیسی ہیں؟"۔ قدم اٹھاتا احد انیقہ بیگم اور مشائم کے نزدیک آیا۔
"میں بھی ٹھیک ہوں"۔ انیقہ بیگم نے کہا۔
"کیا ہوا مشائم تم کچھ پریشان سی لگ رہی ہو؟"۔ وہ جو احد کو دیکھتے صرف ایک بار مسکرائی تھی احد کو اسے دیکھتے تشویش ہوئی۔
"کچھ بھی نہیں"۔ مشائم بیڈ سے اٹھی ہی تھی کہ اسکا سر چکرایا اور قدم لڑکھڑا گئے۔
"کیا ہوا مشی؟؟"۔ نگاہ بسمل مشائم پہ ڈالے احد فکر مند ہوا۔
دیکھتے ہی دیکھتے مشائم بیہوش ہوتے احد کے سینے سے آ لگی جس پہ احد نے مشائم کو بانہوں میں بھرا۔
"یا اللہ خیر مشائم کو کیا ہو گیا۔" انیقہ بیگم بھی ہڑبڑاہٹ میں بیڈ سے اٹھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ذہنی اختلال کے سبب انہیں ٹمپریچر ہو گیا ہے۔ آپ انہیں یہ میڈیسنز بروقت دیں انشاءاللہ افاقہ ہوگا"۔ ڈاکٹر نے پریسکریپشن احد کو تھماتے کہا۔ "ٹھیک ہے اب مجھے اجازت دیں' خدا حافظ"۔ اجازت طلب کرتے ڈاکٹر انٹرنس سے نکل گیا تھا جبکہ ہاتھ میں پریسکریپشن پکڑے احد مشائم کے روم کی طرف آیا۔
"احد کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے؟"۔ احد کو روم میں آتا دیکھ عامر صاحب احد کے قریب آئے۔
"نہیں انکل ڈاکٹر نے بولا ہے کہ معمولی سا ٹمپریچر ہے اتر جائے گا"۔ احد نے تمسکن آمیز انداز میں کہا۔
"زہرہ بیٹا جاو مشائم کیلیئے کچھ کھانے کو لے آو"۔ احد کے بعد عامر صاحب نے زہرہ کو مخاطب کیا۔ " مجھے ایک ضروری کام ہے میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں' احد تم میڈیسن یاد سے لے آنا"۔ احد کو تنبیہ کرتے عامر صاحب روم سے نکل گئے۔
زہرہ بھی روم سے نکل گئی تھی جبکہ احد خشمگیں مشائم کے مقابل بیڈ کی پائینتی پہ آ بیٹھا تھا۔
"احد"۔ خود سے منہ موڑے احد کو مشائم نے پکارا۔
"ہمم"۔ مشائم کی آواز پہ اسنے چہرے کو جنبش دی۔
"چپ کیوں ہو؟"۔ وہ متحیر ہوئی۔
"مشی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جب تم مجھ سے مل کر آئی تھی تو تم ٹھیک تھی پھر اچانک یہ ٹمپریچر کیسے ہو گیا؟"۔ احد نے سوچ بچار سے کہا۔
"اس میں فکر مند ہونے والی کونسی بات ہے احد؟ تم پریشان نا ہو تم ہی نے تو ابھی پاپا کو تسلی دی کہ معمولی سا ٹمپریچر ہے اتر جائے گا۔ اچھا میں تم سے ایک بات کہوں؟"۔ احد کی جانب ہلکا سا جھکتے مشائم نے اسکا ہاتھ تھاما۔
"کہو"۔ بائیں ٹانگ فولڈ کرتے احد اسکے سامنے ہو بیٹھا۔
"احد تم جانتے ہو نا کہ میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں' نہیں رہ سکتی تمھارے بنا"۔ مشائم نے پس و پیش کہا۔
"اچھے یہ جانتا ہوں مشی' پھر؟"۔
"بس تم مجھے کبھی چھوڑ کے تو نہیں جاو گے؟"۔ بکے والی بات مشائم کو ہنوز کھٹک رہی تھی جس پہ اسنے تصدیق چاہی۔
"صرف تم ہی نہیں میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں مشی' تم سے دور جانے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ احد سمعان کے دل کی دھڑکتی دھڑکن ہو تم جسکے رکنے سے احد کا وجود بھی نیست ہو جائے گا۔ تم یہ بات اپنے ذہن سے نکال دو کہ احد کبھی بھی تم سے جدا ہوگا۔ میرے الفاظ بھلے ناقص ہوں مگر نیت میں کوئی کھوٹ نہیں"۔ مشائم کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے احد نے عزم بالجزم سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد"۔
انگلی پہ چابی گھماتا احد اپنی دھن میں انٹرنس کی جانب بڑھ رہا تھا جب عقب سے شہریار کی آواز سنائی دیتے وہ ایڑیوں کے بل گھوم گیا۔
"جی بھائی؟"۔
"کہیں جا رہے ہو؟"۔ شہریار نے احتیاط پوچھ لیا۔
"کہیں نہیں بھائی' کوئی کام ہے؟"۔ تصدیقی الفاظ کا چناو کیا گیا۔
"ہاں وہ پاپا بلا رہے ہیں"۔ شہریار نے آگاہی دی۔
"چلیں"۔ شہریار کے ہم قدم احد' سمعان صاحب کے روم کی جانب بڑھا۔
احد اور شہریار یکجا سمعان صاحب کے روم میں داخل ہوئے جہاں حرا' شہریار کی زوجہ اور راضیہ بیگم بھی موجود تھیں۔
"پاپا آپ نے مجھے بلایا؟"۔ فاصلہ طے کرتے احد' سمعان صاحب کے قریب آیا۔
"ہاں احد بیٹھو"۔ اپنے مقابل کشادہ صوفے کی طرف اشارہ کرتے سمعان صاحب نے کہا۔
شہریار حرا کے برابر کھڑے ہوتے اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
"احد بیٹا مشائم کا ماسٹر کمپلیٹ ہو گیا ہے۔ عامر نے اشاروں میں مجھے کہا کہ اب تمھاری اور مشائم کی شادی کر دی جائے' میں اور راضیہ بیگم شادی کی تاریخ طے کرنے کا سوچ رہے تھے مگر اس سے پہلے تمھاری رائے لینا ضروری سمجھا' کہو تم کیا کہتے ہو؟؟تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں؟"۔ سمعان صاحب نے وضاحت کے بعد کنفرم کیا۔
"پاپا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہاں آپ ایک بار مشائم سے ضرور پوچھ لیجیئے گا"۔ نئی نویلی عروس کی مانند احد کے چہرے پہ لال لالی امڈ آئی تھی۔
"پاپا کیوں پوچھ لیں تم خود پوچھ لینا نا۔ شرما تو ایسے رہے ہو جیسے مشائم سے پردہ کرتے ہو"۔ شہریار نے احد کی ٹانگ کھینچتے کہا جس پہ سب کا جاندار قہقہ گونجا۔
"میں چلتا ہوں"۔ فورا سے صوفے سے اٹھتا احد روم سے باہر دوڑا۔
"مشرقی لڑکی مشائم سے بات ضرور کر لینا"۔ شہریار نے آواز لگائی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆